Monday, 12 September 2016

عید کی نماز کے مسائل

☘ *عید کی نماز* ☘

🌹 *ﺑِﺴْﻢِ ﺍﻟﻠﮧِ ﺍﻟﺮَّﺣْﻤٰﻦِ ﺍﻟﺮَّﺣِﯿۡﻢِ*🌹

🌷 *طریقہ (فقہ حنفی)* 🌷
        
پہلے اِس طرح نیّت کیجئے :
’’میں نیّت کرتا ہوں دو رَکْعَت نَماز عیدُالْاَضْحٰی( یاعیدُالْفِطر )کی ،ساتھ چھ زائد تکبیروں کے ،واسِطے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ، پیچھے اِس امام کے‘‘پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اور اللہُ اَکْبَرکہہ کر حسبِ معمول ناف کےنیچے باندھ لیجئے اور ثَناءپڑھئے ۔ پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیےاوراللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے لٹکا دیجئے ۔پھر ہاتھ کانوں تک اٹھائیے اوراللہُ اَکْبَر کہہ کرلٹکا دیجئے ۔ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائیے اوراللہُ اَکْبَر کہہ کر باندھ لیجئے یعنی پہلی تکبیر کے بعد ہاتھ باندھئے اس کے بعد دوسری اورتیسری تکبیر میں لٹکائیے اورچوتھی میں ہاتھ باندھ لیجئے.اس کو یوں یادرکھئے کہ جہاں قِیام میں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھنے ہیں اور جہاں نہیں پڑھنا وہاں ہاتھ لٹکانےہیں۔  پھر امام تَعَوُّذاور تَسْمِیَہ آہِستہ پڑھ کر اَلحَمدُ شریف اورسورۃ جہر( یعنی بُلند آواز ) کیساتھ پڑھے، پھر رُکوع کرے ۔ دوسری رَکْعَت میں پہلے اَلحَمدُ شریف اور سُورۃ جہر کے ساتھ پڑھے ، پھر تین بار کان تک ہاتھ اٹھا کراللہُ اَکْبَر کہئے اور ہاتھ نہ باندھئے اور چوتھی باربِغیر ہاتھ اُٹھائے اللہُ اَکْبَر کہتے ہوئے رُکوع میں جائیے اور قاعِدے کے مطابِق نَمازمکمَّل کرلیجئے ۔ ہر دو تکبیروں کے درمیان تین بار ’’ سُبْحٰنَ اللہ‘‘کہنے کی مِقدار چُپ کھڑا رَہنا ہے۔
*(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۱ دُرِّمُختار ج۳ص۶۱  وغیرہ)*
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

🌷 *عید کی ادھوری جماعت ملی تو؟*🌷
         
پہلی رَکعَت میں امام کے تکبیریں کہنے کے بعد مقتدی شامِل ہوا تو اُسی وَقت(تکبیرِ تَحریمہ کے علاوہ مزید) تین تکبیریں کہہ لے اگر چِہ امام نے قرائَ ت شروع کر دی ہوا ور تین ہی کہے اگرچِہ امام نے تین سے زِیادہ کہی ہوں اور اگر اس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رُکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کے ساتھ رُکوع میں جائے اور رُکوع میں تکبیر یں کہہ لے اور اگر امام کو رُکوع میں پایا اور غالِب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رُکوع میں پالیگا تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رُکوع میں جائے ورنہاللہُ اَکْبَر کہہ کر رُکوع میں جائے اور رُکوع میں تکبیریں کہے پھر اگر اس نے رُکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اُٹھالیا تو باقی ساقِط ہو گئیں ( یعنی بَقِیَّہ تکبیریں اب نہ کہے) اور اگر امام کے رُکوع سے اُٹھنے کے بعد شامِل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ (امام کے سلام پھیرنے کے بعد) جب اپنی( بَقِیَّہ ) پڑھے اُس وَقت کہے۔ اور رُکوع میں جہاں تکبیرکہنا بتایا گیا اُس میں ہاتھ نہ اُٹھائے اور اگر دوسری رَکعَت میں شامِل ہوا تو پہلی رَکْعَت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہو اُس وَقت کہے۔ دوسری رَکعَت کی تکبیریں اگر امام کے ساتھ پاجائے فَبِھا( یعنی تو بہتر)۔ ورنہ اس میں بھی وُہی تفصیل ہے جو پہلی رَکْعَت کے بارے میں مذکور ہوئی۔
*(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۲، دُرِّمُختار ج۳ص۶۴، عالمگیری ج۱ص۱۵۱)*
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

🌷 *عید کی جماعت نہ ملی تو؟*🌷

امام نے نَماز پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامِل ہی نہ ہوا تھایا شامِل تو ہوا مگر اُس کی نَماز فاسد ہو گئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ (بِغیر جماعت کے) نہیں پڑھ سکتا ۔ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ شَخص چار رَکْعَت چاشت کی نَماز پڑھے۔
*(دُرِّمُختار ج۳ص۶۷)*
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

🌷 *نَمازِعید جانے سے قَبل کی سنَّت*🌷
      
حضرتِ سیِّدُنا بُرَیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حُضورِانور ،شافِعِ مَحشر، مدینے کے تاجور ،باِذنِ ربِّ اکبر غیبوں سےباخبر ،محبوبِ داوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عِیدُ الفِطْر کے دِن کچھ کھا کر نَمازکیلئے تشریف لے جاتے تھے اور عیدِ اَضحٰی کے روز نہیں کھاتے تھے جب تک نَماز سے فارِغ نہ ہو جاتے۔
*(سُنَنِ تِرمِذی ج۲ ص۷۰حدیث۵۴۲  دارالفکربیروت)*
اور
’’ بخاری‘‘ کی رِوایت حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ عِیدُ الفِطْر کے دِن تشریف نہ لے جاتے جب تک چند کَھجوریں نہ تَناوُل فرما لیتے اور وہ طاق ہوتیں

*(بُخاری ج۱ص۳۲۸حدیث۹۵۳دارالکتب العلمیۃ بیروت)*
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

🌷 *نَمازِ عید آنےجانےکی سنَّت*🌷

حضرتِ سیِّدُناابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رِوایَت ہے: تاجدارِ مدینہ، سُرورِقَلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عِید کو( نَمازِ عید کیلئے) ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دُوسرے راستے سے واپَس تشر یف لاتے
*(سُنَنِ تِرمِذی ج۲ص۶۹حدیث۵۴۱)*

┄─┅━━━━▣▣▣━━━━━┅─┄           *طالب دعاء گداۓ در پیرسیال لجپال محمد کاشف ناز حمیدی سیالوی*

No comments:

Post a Comment